شاگر د نے غور سے سن رہا تھا استاد نے پوچھا:اگر میں تمہیں ایک سیب اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس
کتنے سیب ہوجائیں گے؟شاگر د نے بغیر کسی تامل کے جوا ب دیا ۔ چار۔ استاد کو لگا کہ شاید شاگرد صیحح سے سوال
سمجھ نہیں پایا، استاد نے اطمینان سے دوبارہ پو چھا:دیکھو اگر میں تمہیں ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس
کل کتنے سیب ہوجائیں گے شاگر د سوچنے لگا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا چار!!اب استاد کچھ حیران ہوا اور غصہ بھی آیا مگر اس نے دوبارہ سوال کیا ، اب کی بار شاگر د نے استاد کے
چہرے پرپھیلی مایوسی دیکھتے ہوئے کافی سوچ کر جواب دیا اور کہا: چار!دفتاً استاد کو یاد آیا کہ شاگرد کو لیچی پسند ہے ہوسکتا ہے اسے سیب پسند نہ ہو اور اس وجہ سے وہ سوال پر فوکس نہیں کرپارہا، لہذا استاد نے پوچھا اچھا بتاؤ اگر تمہیں ایک لیچی اور ایک لیچی اور ایک لیچی دوں تو تمہارے پاس کل کتنی ہوگی؟
شاگرد نے سوچ کر جواب دیا اور سوالیہ انداز میں کہا :تین !!بالکل ٹھیک ۔ استاد نے خوش ہو کر کہا اور پھر پوچھا کہ بتاؤ۔ اگر میں تمہیں ایک سیب اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس کل کتنے سیب ہوں گے؟ چار۔ شاگرد نے جواب دیا۔ اب استاد کو بہت غصہ آیا اس نے پہلے تو شاگر د کو ڈانٹا اور پھر غصے میں پوچھا کیسے چار سیب؟ شاگر نے معصومیت سے جواب دیا کیونکہ ایک سیب میرے بیگ میں پڑا ہوا ہے۔ لہذا غصہ کرنے سے بہتر ہے کہ انسان پہلے دوسروں کی رائے جان لے، ہوسکتا ہے وہ کسی اور پھلوں سے معاملے کو دیکھ رہیں ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی رائے درست ہو۔