محسن گواریہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ” پنجاب جیسے صوبے میں گندم کی قلت،یقین نہیں آ رہا تھا اور چند کلو سستے آٹے کے حصول کے لئے
لمبی لمبی قطاریں اور شہریوں کی جانیں چلی جاناایک المناک سانحہ تو ہے ہی مگر ہماری انسانیت کہاں مر گئی تھی؟انتظامیہ کہاں سو رہی
تھی؟ موجودہ پنجاب حکومت میں عام شہری کو سہولتیں اورریلیف دینے کے لئے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے،عوامی بہتری اور بھلائی کے لئے ریکارڈ قانون سازی بھی کی
گئی مگر اِس بات پر غور نہ کیا گیا کہ ایسے فقیدالمثال اقدامات کے باوجود عام شہری کی زندگی میں کوئی بدلاؤ کیوں نہیں آسکا؟وہ کیا وجوہات ہیں کہ قانون بھی موجود ہے،
حکومت بھی ہر ممکن اقدام کو تیار ہے مگر غریب شہری کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے؟اِس حوالے سے راقم بے شمار مرتبہ حکمران طبقوں کی توجہ اِس جانب مبذول
کرا چکا ہے کہ قوانین کا انبار لگا دیں، غریب کو ریلیف دینے والے اقدامات بروئے کار لے آئیں،جیسے مرضی خوش کن اعلانات کر دئیے جائیں، جب تک قوانین پر عملدرآمد اور پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے والی کوئی مناسب فورس نہیں ہو گی تب تک تبدیلی ناممکن ہے، عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکے گا، امن، تحفظ،انصاف اور روزگار تو بہت دور کی بات ہے دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ملکی حالات سامنے ہیں جس کی لاٹھی، بھینس بھی اُسی کی ہے،سرمایہ دار، صنعتکار، جاگیردار، بڑے تاجروں کے اپنے قوانین ہیں،کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں، زرعی ملک میں اجناس کی قلت پیدا کی جا رہی ہے اور اِس آڑ میں قیمتوں کو صبح و شام بڑھایا جا رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، پولیس کلچر وہی ہے جو کبھی تھا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ڈاکو، چور، رسہ گیر سرعام وارداتوں میں مصروف ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں،ہر دکاندار حتیٰ کہ چھابڑی فروش کا اپنا ریٹ ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کوئی شبہ نہیں کہ چیف سیکرٹری عبداللہ سنبل،ایڈیشنل چیف سیکرٹری کیپٹن اسد اللہ خان،انسپکٹر جنرل پولیس عامر ذوالفقار کی شکل میں ایک بہترین انتظامی ٹیم کام کر رہی ہے مگر سیاسی خرابیوں نے انتظامی معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،آئے روز تبادلوں نے انتظامی بحران پیدا کیا ہوا ہے، وافر گندم کی موجودگی میں بھی گندم اور آٹے کی کمیابی کا کیا مطلب ہے؟ کہیں نہ کہیں مسئلہ تو ضرور ہے؟سیکرٹری انڈسٹری سہیل اشرف کے اِس حوالے سے چیف سیکرٹری کی ایک میٹنگ میں پیش کئے جانے والے اعداد وشمار آنکھیں کھولنے کے لئے
کافی ہیں۔ساہیوال کے کمشنر جاوید اختر محمود اِس ماحول میں بھی بہتر کارکردگی پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ مثالی کام کر رہے ہیں۔ سرگودھا کی خاتون کمشنر مریم خان اور کمشنر لاہور عامر جان بھی محنت کر رہے ہیں،سابق کمشنر ڈیرہ غازی خان لیاقت چٹھہ نے بارشوں اور فلڈ ریلیف کے لئے بہترین کام کیا مگر نجانے اُنہیں کس سیاسی شکایت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یادشِ بخیر،ملک میں ایک مجسٹریسی نظام تھا جو فوری فیصلے کرتا تھا،مجسٹریٹ خود مارکیٹوں کے دورے کرتے،چھاپے مارتے، شکایات کا نوٹس لیتے اور شہریوں کو ریلیف بھی ملتا تھا، امن اور تحفظ بھی،ایک معمولی سی بات جو کوئی خفیہ راز نہیں مگر حکمرانوں نے دانستہ اُدھر سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں،کم سے کم تنخواہ اِس وقت 25ہزار روپے ماہانہ اور دن میں آٹھ گھنٹے کام لینے کا قانون موجود ہے مگر سرمایہ دار،صنعتکار یہاں تک کہ ورکشاپس اور عام مارکیٹوں، کارخانوں میں کوئی اِس پر عمل نہیں کرتا اور12،10 ہزار پر لوگوں کی محنت کا استحصال کیا جا رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں،یوں لگتا ہے حکومت ایسے اعلانات کر کے غریبوں کو محض راضی کرتی ہے اور عملدرآمد نہ کر کے امیر لوگوں کو مٹھی میں رکھتی ہے،اگر مجسٹریسی نظام بحال ہوتا تو عام شہری اُن کو بغیر وکیل شکاdت کرتا اور وہ چھاپہ مار کر کارروائی کرتے تو اِس قانون پر عملدرآمد سے کروڑوں شہریوں کا فائدہ ہو جاتا، صوبہ جن گونا گوں مسائل سے دوچار ہے اُس میں بڑی ضرورت مجسٹریسی نظام کی بحالی کی ہے ورنہ قانون بنتے رہیں گے، پالیسیوں کا اعلان ہو تا رہے گا لیکن غریب شہری محروم ہی رہیں گے۔
موجودہ وقت میں مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت سے جہاں ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، نچلی سطح تک ہر کوئی من مرضی کر رہا ہے، کسی کو قانون کی پروا ہے نہ ضابطوں کی،سچ یہ کہ قانون کا خوف ہی تحلیل ہو چکا ہے،حال یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ بھی معاملات کو سدھارنے میں ناکام ہے بلکہ مسلسل ناکامی کے بعد تھک ہار کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہی ہے اور تماشا دیکھے جا رہی ہے۔بعض حضرات کے خیال میں ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں،ضرور ہوں گی مگر عشروں کی آزمائش نے اُسے آزمودہ نظام بنا دیا تھا اور تسلسل سے اگر یہ نظام رائج کیا جائے تو اِس کی خامیوں کو دور کرنا مشکل نہیں ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ صوبے کی سطح پراگرایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام بحال کیا جائے تو گراں فروشی،ذخیرہ
اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی صورت حال میں بہت حد تک بہتری آسکتی ہے،مجسٹریٹس کا کام صرف قیمتیں چیک کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ گڈ گورننس اور حکومت کی کارکردگی کو عوامی سطح تک پہنچانے میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں، مصنوعی طریقے سے پیدا کی گئی مہنگائی اور اجناس کی مصنوعی قلت کو اگر قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنے کا سوچا جا رہا ہے تو مجسٹریسی نظام اِس کے لئے بہت ضروری ہے تاہم راتوں رات مجسٹریٹ سسٹم بحال کرنے سے بہتری کے آثار نظر نہیں آئیں گے کیونکہ اِس سسٹم کے خاتمے سے کافی مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ماضی میں ڈپٹی کمشنر کا کردار بہت مضبوط تھا، وہ نہ صرف ایک منتظم ہوا کرتا تھا بلکہ ریونیو کلیکٹر کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا پھربحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اُس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے، یوں امن و امان کنٹرول کرنا اُس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں امن و امان اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور شہریوں کی پہلی ترجیح دو وقت کی روٹی ہے جس کا حصول آٹے کی فراہمی سے مشروط ہے مگر منافع خور مافیا نے آٹے اور گندم کی سمگلنگ،گندم کی درآمد، پھر اِس پر سبسڈی حاصل کرنے کے لئے قلت پیدا کر رکھی ہے اور اِس کی آڑ میں قیمت آسمان پر پہنچا دی گئی ہے،اِن حالات میں مجسٹریسی نظام فعال ہوتا تو سمگلنگ ہوتی نہ ذخیرہ اندوزی سے قلت اور نہ قلت کی آڑ میں قیمت میں اضافہ،اب بھی غور کریں، مجسٹریسی نظام کی بحالی کی ماضی سے زیادہ ضرورت ہے۔ ڈی سی کو با اختیار بنانا ضروری ہے، اُس سے بے لگام پولیس بھی قابو میں آ جائے گی، گورننس کنٹرول کرنے کے لئے بھی مجسٹریسی کا کردار انتہائی اہم ہے اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اور قانون کے مطابق ہی تھے، مجسٹریسی نظام کی وجہ سے اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی۔