ان خیالات کا اظہار نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرا ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے کیا۔ سرفراز احمد نے کہا کہ چار سال کا عرصہ مشکل تھا، ٹیم میں شامل رہا لیکن کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا
تھا، تبدیلوں کے بعد چیف سلیکٹر اور سابق ٹیسٹ کپتان شاہد آفریدی نے ہمت بندھائی اور کپتان بابر اعظم نے حوصلہ دیا، طویل
انتظار کے بعد کیریئر کی چوتھی ٹیسٹ سنچری کے ساتھ بہترین انفرادی اسکور کرنے پر خوشی ہوئی لیکن پاکستان جیت جاتا تو اچھا لگتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک موقع پر پاکستان فتح کے دہانے پر پہنچ چکا تھا،کھیل کے آخری سیشن میں وکٹیں بچانا بھی بہت ضروری تھا، اگر سعود شکیل یا سلیمان علی آغا وکٹ پر ٹھہر جاتے تو ہم ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔
سرفراز احمد نے کہا کہ ’ہوم گراؤنڈ پر جیت کی خواہش تھی، ہم سلو نہیں کھیلے بلکہ سیشن بائی سیشن کھیلنے کی کوشش کی، آخری سیشن میں جیت کی طرف جانے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا، سنچری اسکور کرنے پر اعزازی بورڈ پر اپنا نام لکھنا اچھا لگتا ہے، بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاکستان دفاعی کرکٹ کھیلتا ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ سیشن بائی سیشن کا کھیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشکل وقت میں ساتھی اور کئی صحافی حوصلہ بڑھاتے رہے، سابق ٹیسٹ کپتان معین خان، کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے مالک ندیم عمر اور منیجر و کوچ اعظم خان نے ہمیشہ حوصلہ بڑھایا