کالم نگار محمد سعید آرائیں لکھتے ہیں کہ” وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ہمارے لوگ سبسڈی کے عادی ہو چکے ہیں،
جنھیں سابقہ حکومتوں نے سبسڈی لینے کی عادت میں مبتلا کیا تھا۔ شبلی فرازنے وفاقی وزیر اطلاعات بنائے جانے کے بعد
عوام کے بجائے پی ٹی آئی حکومت کی ترجمانی کرکے اپوزیشن اور میڈیا کو مایوس کیا بلکہ اپنے وزیر اعظم کو بھی مطمئن نہ کرسکے تھے اور جلد ہی ان کی وزارت تبدیل کردی گئی تھی۔
ایک ٹاک شو میں جب شبلی فراز سے پوچھا گیا کہ حکومت کے مطابق منی بجٹ سے عوام پر صرف دو ارب روپے کا بوجھ پڑے گا تو حکومت دی گئی تین سو ساٹھ ارب روپے کی جو سبسڈی ختم کر رہی ہے کیا اس کا بوجھ عوام پر نہیں پڑے گا ؟ تو شبلی فراز کا جواب تھا کہ ملک کے عوام سبسڈی کے عادی ہو چکے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے کے بجائے حکومت سے سبسڈی لینے کے عادی ہو چکے ہیں اور حکومت ملکی معیشت
کی بہتری کے لیے ماضی میں حکومتوں کی دی گئی سبسڈی ختم کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی کہتے آ رہے ہیں کہ عوام ٹیکس دینے کے بجائے سہولتیں چاہتے ہیں جو حکومت ملک کی معیشت بہتر بنانے کی کوشش کے باعث نہیں دے سکتی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ساڑھے تین سالوں میں کوئی بھی ریلیف نہیں دیا بلکہ مسلسل حکومتی اخراجات اور مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ، جس کے نتیجے میں ملک کے عوام ریکارڈ مہنگائی کے طوفان میں دھنسے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم یہ کہتے نہیں تھک رہے کہ
پاکستان دنیا میں اب بھی سستا ہے۔ وزیر اعظم کی طرح وفاقی وزیروں کی یہ رٹ بھی جاری ہے کہ خطے کے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اب بھی پٹرول ڈیزل سستا ہے جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں مگر وزیر اعظم اور ان کے وزیر حقیقت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ موجودہ حکومت نے رمضان المبارک کے موقع پر سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورز پر جو خود ساختہ سبسڈی دی وہ بھی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ سے اس طرح واپس لی کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ملنے والی اشیا کی قیمتیں بڑھائیں اور دنیا میں اگر پٹرول سستا ہوا تو اس کا فائدہ بھی عوام کو نہیں دیا اور جو پٹرول 11 روپے لیٹر سستا ہونا چاہیے تھا۔
پٹرول پر سرکاری لیوی بڑھا کر صرف ایک بار 5 روپے سستا کیا اور اگلے ہفتے ہی چار روپے سے زائد مزید بڑھا کر عوام کو دیا گیا وہ معمولی ریلیف بھی 15 روز بعد ہی واپس لے لیا تھا۔ حکومت نے ہر ماہ کے بعد پٹرول کی قیمت بڑھانے کا سلسلہ اب ہر 15 روز بعد اپنالیا ہے اور پٹرول سستا ہونے کا فائدہ عوام کو فوری نہیں دیا جاتا اور پٹرول کی قیمت 15 روز سے قبل بجلی کی قیمتوں کے اندھیرے میں مسلط کردی جاتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی آئے دن اضافہ معمول بن چکا ہے اور گزشتہ مہینوں میں استعمال کی گئی مہنگی بجلی بل ادائیگی کے کئی ماہ بعد بھی اب مسلسل اضافی قیمت نیپرا بڑھانے میں مصروف ہے۔ پٹرول اور بجلی مہنگی ہونے سے مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے بلکہ وزیر اعظم کی طرف سے اوگرا کی بھیجی گئی سمری میں قیمت میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے اور حکومت مہنگائی بڑھانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر حکومتی سبسڈی کا فائدہ عوام کو کم اور اس کے عملے کی ملی بھگت سے تاجروں کو مل رہا ہے جنھیں رات کے اندھیرے میں مال فروخت کیا جاتا ہے اور عوام کو کہا جاتا ہے کہ وہ چیز ختم ہوگئی ہے جو زائد نرخوں پر تاجر خرید لیتے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر لوگوں کو طلب کے مطابق کم قیمت اشیا نہیں دی جاتیں بلکہ فروخت نہ ہونے والی مشروط کرکے دی جاتی ہے اور سبسڈی کا حقیقی فائدہ تاجروں اور یوٹیلیٹی افسروں کو پہنچ رہا ہے۔ حکومت مسلسل الزام لگاتی آ رہی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو بجلی، گیس اور پیک اشیائے خوردنی و ضرورت پر جو سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے کیا وہ ٹیکس نہیں ہوتا؟ ایکسائز ڈیوٹی، ود ہولڈنگ ٹیکس کیا سرکاری ٹیکس نہیں ہیں جو ہر شخص ادا کرتا آ رہا ہے؟ حکومت سبسڈی تو ختم کر رہی ہے مگر حکومتی اخراجات کم کرنے پر توجہ نہیں دے رہی۔ سترہ رکنی کابینہ کے دعویدار وزیر اعظم کی کابینہ کی تعداد ساٹھ تک ہوگئی مگر معاونین خصوصی کا تقرر نہیں رک رہا۔ سبسڈی حکومت ختم کرنے کے در پے ہے اور عوام کے ٹیکس نہ دینے کا سرکاری واویلا مسلسل جاری رہنے کے بعد اب وزیر خزانہ دھمکیاں دے رہے ہیں اور شبلی فراز عوام کو سبسڈی کا عادی قرار دے کر ان کی توہین کر رہے ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتی بلکہ اپنے فالتو اخراجات نہیں روک رہی اور اپنوں کو مسلسل نوازنے والوں کو تنخواہ دینے کے لیے رقم عوام سے وصول کرنے کی خود عادی ہوچکی ہے۔