سینئر صحافی اعزاز سید نے اپنے آج کے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ مجھے ابھی تک عمران خان تو تبدیل ہوتے
نظرنہیں آرہے البتہ عمران خان مارچ تک مئی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں گورنرپنجاب
کوضرورتبدیل کرنے جارہے ہیں۔ ادھرعمران خان کی طرف سے یہ نظریہ کہ پاکستان میں کرپشن تمام مسائل کی
جڑ ہے بری طرح پٹ رہا ہے لوگ کمزور معاشی پالیسیوں کے باعث مہنگائی سے بلک رہے ہیں مگرکوئی مدد کرنے والا نہیں۔حکومت اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے نوازشریف کو وطن واپس لا کر جیل میں بند کرنے کے اعلانات بھی کرتی رہی ہے مگر ان کے اپنے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر نے 18 جنوری کو ہونے والے کابینہ کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس کو بتایا ہے کہ
نوازشریف کو برطانیہ سے واپس لایا جانا آسان نہیں۔ انہوں نے اجلاس میں عارف نقوی کا حوالہ بھی دیا کہ کس طرح امریکہ، برطانیہ سے عارف نقوی کی حوالگی کے لیے بے بس ہوا بیٹھاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ سب بند گلی میں ہیں۔اسٹیبلشمنٹ نے سب کو اپنی طاقت سے کنٹرول تو کررکھا ہے مگر وہ بار بار سیاست میں مداخلت کے باعث تیزی سے غیر مقبول ہورہی ہے۔ ادھر تحریک انصاف کو حکومت کرنا
آرہا ہے نہ اپوزیشن جماعتوں کواپوزیشن کرنا۔ سب ہلکی آنچ پر’’ابالیاں‘‘ کھارہے ہیں۔اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد شاید وزیراعظم عمران خان کی بجائے اسپیکرقومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کے خلاف آتی نظر آرہی ہے۔ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک عملی طورپرمجھے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیتلی میں رکھے اس گرم پانی کی مانند لگتی ہے، جو ابل رہا ہے اس میں سے بھاپ بھی نکل رہی ہے مگر اسے کیتلی سے گرنے نہیں دیا جارہا۔