لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
چند روز پہلے کچھ کالم افغانستان کی صورتحال پر لکھے تھے تو جہاں کچھ دوستوں نے میرے ذہن
میں ابلتے خدشات کو سراہا وہاں چند نے انہیں یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے‘ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
میرا خیال تھا کہ افغانستان میں تالبان کو دوبارہ کنٹرول ملنے اور حکومت قائم ہونے سے پاکستان میں بھی وہ قوتیں سر اٹھائیں گی جو تالبان کو اپنا ہیرو مانتی ہیں، انہیں اپنا رول ماڈل سمجھتی ہیں‘ یوں نئے سرے سے لڑائی ہوگی۔
ان قوتوں کو طاقت ملے گی کہ اگر افغان تالبان افغانستان کو فتح کر سکتے ہیں اور وہاں امریکی اور نیٹو فورسز سے لڑ کر کابل واپس لے سکتے ہیں تو ہم یہاں کیوں نہیں کر سکتے؟ اس کے جواب میں ہمارے دانشور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے فرمانے لگ جاتے ہیں کہ ایسا پاکستان میں نہیں ہوسکتا۔ ہماری فورسز کی پروفیشنل ازم جرأت اور بہادری کی تعریف کرتے کرتے‘ ہماری ستر ہزار انسانی قربانیوں کا ذکر کرتے کرتے ان کی تان اس پر آکر ٹوٹتی ہے
کہ پاکستان کوئی ترنوالہ نہیں کہ کوئی اسے یوں ہڑپ کر لے‘ ہم ایک نیوکلیئر ملک ہیں۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کی روس بھی نیوکلیئر ملک تھا، امریکہ بھی تھا، برطانیہ بھی تھا، جرمنی، فرانس سب نیوکلیئر ملک تھے، ان کے پاس بھی پروفیشنل سولجرز اور جدید ٹیکنالوجی تھی لیکن پھر بھی سب نے شکست مان لی اور انہوں نے ایٹمی ہتھیار کا استعمال نہیں کیا‘ تو کیا ہم وہ استعمال کر لیں گے؟۔ ابھی نئی خبر آرہی ہے کہ اسلام آباد میں لال مسجد میں تیرہ چودہ سال پرانا ایشو پھر گرم ہورہا ہے۔ تالبان کا جھنڈا لال مسجد پر لہرا دیا گیا ہے۔ مطلب ایک جھنڈا تالبان کا کابل‘ قندھار اور پنچ شیر میں لہرا رہا ہے تو ایک جھنڈا اب اسلام آباد
کے دل میں بھی لہرا رہا ہے۔ ہم اپنے تئیں افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے گئے تھے‘ پتہ چلا ہے ہم الٹا ان کا پانچواں صوبہ بن کر رہ گئے ہیں اور خوشی سے ڈھول بھی ہم پیٹ رہے ہیں۔ یہ فطری سی بات ہے کہ لوگ اور معاشرے ایک دوسرے سے اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمسایہ ملک میں تبدیلیاں آرہی ہوں اور ہم ان سے متاثر نہ ہوں۔ ایران کو دیکھ لیں کہ جب وہاں شاہ ایران کے بعد انقلاب آیا تو اس کے اثرات براہ راست پاکستان پر بھی پڑے۔ پاکستان مڈل ایسٹ
کے دو روایتی ملکوں کی پراکسی وار کا ایندھن بن گیا اور ہزاروں پاکستانی معصوم لوگ اس پراکسی وار میں جان سے گئے۔ جب بھارت میں بابری مسجد گرائی گئی تو اس کا بھی اثر پاکستان پر پڑا اور یہاں بھی کئی مندر گرا دیے گئے۔ بھارت میں جو بھی مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی خبریں آتی ہیں ان پر ردعمل آتا ہے۔ ایسے ہی جب یہاں کسی اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اس کا دوسرے ملکوں میں اثر ہوتا ہے۔ اب ہم گلوبل ولیج میں رہتے ہیں جہاں ایک دوسرے کے نظریات، ایکشن ری ایکشن سے متاثر ہونا فطری سی بات ہے۔اسی لیے اس وقت بھی لکھا تھاکہ ہم کابل پر تالبان کے قبضے اور امریکی فوج کے وہاں سے نکلنے پر جو خوشیاں منا رہے ہیں یہ ہمیں مہنگی پڑ سکتی ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ امریکی تالبان کو خود کابل میں چھوڑ کر گئے ہیں۔تالبان خود کہہ چکے ہیں
کہ ان کا کابل میں داخل ہو کر زبردستی قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ وہ کابل کے باہر مورچہ زن تھے کہ جب تک نئی حکومت بنانے پر اتفاق اور مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے وہ اندر داخل نہیں ہوں گے لیکن اچانک پتہ چلا کہ امریکی بھی چلے گئے ہیں، اشرف غنی بھی فرار ہوگئے ہیں، افغان آرمی بھی کہیں غائب ہوگئی ہے اور کابل میں شدید ایشو پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ امریکی نہ چاہتے تو تالبان کابل میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ باقی چھوڑیں‘ بھلا یہ کیسے ممکن تھاکہ امریکہ کی منشا اور مرضی کے بغیر ملا برادر جہاز لے کر قطر سے سیدھا قندھار لینڈ کر سکتے؟امریکی خود چاہتے ہوں گے کہ جو ممالک ان کی افغانستان موجودگی کے خلاف تھے وہ اب ذرا تالبان کی حکومت کا مزہ چکھیں۔ یقینا تالبان نے شروع میں اپنا امیج بہتر کرنے کی کوشش کی اور کچھ اچھے اقدامات کیے‘ جن کی سب نے تعریف کی‘ لیکن جلد ہی ایسی ویڈیوز سامنے آنا شروع ہوئیں کہ ان کے حامیوں کو بھی شدید جھٹکا لگا۔ بہت سارے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے باندھ کر لے جایا گیا جن کی ویڈیوز سامنے آئیں حالانکہ تالبان عام معافی کا اعلان کر چکے تھے۔ کابل میں خواتین کو زدوکوب کرنے کی ، پھر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ تالبان کے اپنے اندر اختلافات بڑھ گئے ہیں اور شاید آپس میں ان کی لڑائی کی بھی خبریں سامنے آئیں جن کی بعد میں تردید کی گئی لیکن لگ رہا ہے
کہ سب کچھ ٹھیک نہیں۔تالبان کے افغانستان پر قبضے کا سب سے زیادہ اور براہ راست اثر اگر کسی پر آنا تھا اور آنا ہے تو وہ ایک ہی ملک ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ تالبان کا کوئی اثر اس کے ہمسایہ ملک ایران میں نہیں ہوگا کیونکہ دونوں کی آئیڈیالوجی‘ زبان اور کلچر مختلف ہیں۔ روس یا سنٹرل ایشیا کی مسلمان آبادیوں پر بھی اثرات نہیں ہوں گے کیونکہ تالبان سے ان کی زبان، کلچر، نسل مختلف ہے۔ تاجک یا ازبک بھلا کیسے پشتو بولنے والے تالبان کا اثر قبول کریں گے؟ بلکہ اگر افغانستان میں کچھ مزاحمت تالبان کے خلاف ہوئی ہے تو وہ تاجک اور ازبک کر رہے ہیں یا آئندہ کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں بڑی لڑائی تاجک، ازبک اور پشتونوں میں رہی ہے۔ پاکستان ہی ایسا ملک ہے جہاں بڑی تعداد میں نہ صرف افغان تالبان کے حامی پائے جاتے ہیں بلکہ ان کی زبان، نسل اور کلچر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان سب کے قبائل افغانستان سے پاکستان کے اندر تک موجود ہیں۔تالبان کی جو فرنچائز پاکستان میں آپریٹ کرتی آئی ہے اسے اچانک بہت سارا حوصلہ ملا ہو گا کہ اگر مسلسل لڑائی لڑی جائے تو کامیابی مل سکتی ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو پچھلے دنوں میں پاکستانی تالبان کا حوصلہ بڑھا ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستانی فوج پر اٹیک ہے جس میں ہمارے سات فوجی قربان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ون سائیڈڈ معافی کے اعلان کو بھی تالبان نے حقارت سے ٹھکرا دیا
کہ وہ کیونکر اپنی جدوجہد یا لڑائی چھوڑیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ یوں ہمارے کچھ دوست خصوصاً میجر عامر جو مسلسل کہہ رہے تھے کہ پاکستانی تالبان کو بھی عام معافی ملنی چاہئے تاکہ حالات نارمل رہیں وہ یقینا تالبان کے اس موقف سے خوش نہیں ہوں گے۔ میجر عامر کو یقینا تالبان کے اس جواب سے مایوسی ہوئی ہوگی۔ میجر عامر2014 سے مسلسل کوشش کررہے تھے کہ کہیں کوئی صلح کا امکان پیدا ہو۔ وہ اس کمیٹی میں بھی شامل تھے جو نواز شریف نے تالبان سے مذاکرات کیلئے بنائی تھی۔ میجر عامر سمجھتے ہیں تالبان تیار تھے لیکن پھرکچھ عوامل کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھی اور اایکشن شروع کر دیا گیا۔ اب تو میجر عامر کی تجویز اور خواہش پر عام معافی کا بھی اعلان ہوا لیکن جواب سات فوجیوں کی جان لے کے دیا گیا۔رہی سہی کسر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز نے پوری کر دی ہے۔ وہ تالبان کا جھنڈا لہرا چکے ہیں اب کون مائی کا لال ہے جو اتار کر دکھائے۔ انہوں نے لال مسجد کی بچیوں کو پھر مسجد کی چھت پر بٹھا دیا ہے۔ گھوم پھر کر تیرہ چودہ برس بعد ہم وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔اب آپ کی مرضی ہے کہ تالبان کی کابل پر قبضے کی خوشیاں منائیں یا پھر اپنے گھر کے اندر اپنے تالبان سے ایک اور طویل لڑائی اور بدامنی کے لیے تیار ہو جائیں۔ ایک تیسرا آپشن بھی ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں، بلی خود بخود غائب ہوجائے گی۔