in

: رمیز راجہ کی زندگی کی کہانی بی بی سی کی زبانی

: رمیز راجہ کی زندگی کی کہانی بی بی سی کی زبانی

 

لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی عبدالرشید شکور بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے پیٹرن اِنچیف اور ملک کے وزیراعظم عمران خان نے سابق کرکٹر اور اہنے دوست رمیز راجہ کو بورڈ کا چیئرمین نامزد کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا

 

اس پر توثیق کی مہر پیر کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے اجلاس میں لگ گئی ہے اور رمیز راجہ اب احسان مانی کی جگہ ملکی کرکٹ کے منتظم ادارے کے نئے سربراہ بن گئے ہیں۔ان سے قبل سنہ 2018 میں احسان مانی کو بھی عمران خان نے ہی اس عہدے پر نامزد کیا تھا جب نجم سیٹھی ان کے وزیر اعظم بننے پر مستعفی ہو گئے تھے۔واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کے تحت ملک کا وزیراعظم بورڈ کا پیٹرن انچیف ہوتا ہے۔ ملک کا وزیراعظم اپنے دو نمائندے بورڈ آف گورنرز میں نامزد کر سکتا ہے جس کے بعد وہ 10 ارکان بورڈ کے نئے چئیرمین کا باضابطہ طور پر انتخاب کرتے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ دس نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں چار اداروں کے اور چار ریجنز کے نمائندے ہیں جبکہ دو نمائندے حکومت کے ہوتے ہیں جن کے نام وزیراعظم کی طرف سے دیے جاتے ہیں ان میں سے ایک چیئرمین منتخب ہوتا ہے اور رمیز راجہ کو 13 ستمبر کو اس عہدے پر بلامقابلہ منتخب کیا گیا ہے۔یہ سنہ 1981 کی بات ہے۔ آسٹریلیا کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔دورے کا دوسرا انڈر 19 ٹیسٹ حیدر آباد کے نیاز سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا تھا۔ یہی وہ میچ ہے جس میں نوجوان رمیز راجہ کی صلاحیتیں پہلی بار کُھل کر سامنے آئیں۔وہ پاکستان کی انڈر 19 ٹیم کے کپتان تھے اور انھوں نے پاکستان کی واحد اننگز میں ناقابل شکست 162 رنز سکور کیے تھے۔ اس اننگز کے بعد ہی وہ مستقبل کے ٹیلنٹڈ ٹیسٹ کرکٹر سمجھے جانے لگے تھے۔

 

لیکن کرکٹ میں انھیں کسی سے متاثر ہونے کے لیے کہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے گھر میں ہی بہترین مثالیں موجود تھی۔رمیز راجہ کرکٹ میں اتفاقیہ نہیں آئے تھے بلکہ اپنے بڑوں کو کھیلتا دیکھ کر انھوں نے بھی گیند بلے سے دوستی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ان کے والد راجہ سلیم اختر ملتان اور لاہور کے کمشنر ہونے کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ بڑے بھائی زعیم راجہ نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی لیکن رمیز راجہ کے لیے اس کھیل میں کشش سب سے بڑے بھائی وسیم راجہ کی وجہ سے بھی تھی جو ستر اور اسی کی دہائی میں جارحانہ بیٹنگ کا ٹریڈ مارک تھے۔رمیز راجہ ان کرکٹرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے کرکٹ کی وجہ سے تعلیم کو پسِ پشت نہیں ڈالا بلکہ ایچیسن کالج اور پنجاب یونیورسٹی جیسی درسگاہوں سے حاصل کردہ اپنی علمی قابلیت کو اس کھیل میں رہتے ہوئے بڑی عمدگی سے استعمال کیا۔رمیز راجہ کا ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا خواب 1984 میں باب ولس کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پورا ہوگیا۔دوہری خوشی اس لیے بھی تھی کہ بڑے بھائی وسیم راجہ بھی اس ٹیسٹ میں ان کے ساتھ موجود تھے۔ لیکن کارکردگی کے لحاظ سے یہ ٹیسٹ دونوں بھائیوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوا تھا۔رمیز راجہ کا ٹیسٹ کیریئر 57 میچوں پر محیط رہا جس میں انھوں نے دو سنچریوں اور 22 نصف سنچریوں کی مدد سے 2833 رنز سکور کیے۔انھوں نے 198 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں بھی

 

پاکستان کی نمائندگی کی۔ نو سنچریوں اور 31 نصف سنچریوں کی مدد سے رمیز راجہ نے محدود اوورز کے کھیل میں 5841 رنز بنائے۔ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ شاید 92 ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت رہا۔رمیز راجہ 1992 عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے جس کے کپتان عمران خان تھے۔اس عالمی کپ میں رمیز راجہ نے دو سنچریاں سکور کی تھیں جبکہ فائنل میں پاکستان نے انگلینڈ کی جس آخری وکٹ (رچرڈ النگورتھ) کو حاصل کر کے عالمی کپ جیتا وہ کیچ رمیز راجہ نے ہی اپنے کپتان کی گیند پر لیا تھا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ عالمی کپ کے فوراً بعد عمران خان کے خلاف جن کرکٹرز نے بغاوت کی تھی ان میں رمیز راجہ، سلیم ملک اور جاوید میانداد کو خیال کیا جاتا ہے۔رمیز راجہ پانچ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کے کپتان بھی رہے جن میں سے پاکستان نے ایک جیتا، دو ہارے اور دو ڈرا رہے۔ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی وہ کامیاب کپتان ثابت نہ ہوسکے ۔ان کی قیادت میں کھیلے گئے 22 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان نے صرف سات میں کامیابی حاصل کی، 13 میں شکست ہوئی جبکہ دو کا نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔نوے کی دہائی میں جب پاکستان کی کرکٹ کو میچ فکسنگ سکینڈل نے بری طرح جکڑا ہوا تھا، اس دور میں رمیز راجہ ان چند ہی کرکٹرز میں سے ایک تھے جن پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں لگا۔وہ صاف شفاف کردار کے مالک کے طور پر پہچانے گئے بلکہ میچ فکسنگ کے خلاف انھوں نے آواز بلند کی۔

 

کرکٹ مین بدعنوانی کے بارے میں رمیز راجہ کا ہمیشہ سے واضح اور دو ٹوک مؤقف رہا ہے کہ جو بھی کرکٹر فکسنگ میں ملوث رہا، اسے دوبارہ پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ بلکہ وہ ایسے کھلاڑی کو قید میں بھیجنے کی بات بھی کرچکے ہیں۔رمیز راجہ نے بحیثیت کرکٹر کریئر ختم ہونے کے بعد مائیک سے ایسی دوستی کی جو آج تک برقرار ہے۔بحیثیت کمنٹیٹر انھوں نے دنیا بھر میں اپنی شناخت ایک ایسے تجزیہ کار اور مبصر کے طور پر کرائی جس کی بات کو نہ صرف توجہ سے سنا جاتا ہے بلکہ ان میں وزن بھی ہوتا ہے۔رمیز راجہ نے نہ صرف اپنی بیشتر کرکٹ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی ہے بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ہیڈ کوارٹر بھی ان کے لیے نیا نہیں ہے۔سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں وہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا کے دور میں بورڈ کی ایڈوائزری کونسل کے رکن تھے جس کے بعد انھیں ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز بنا دیا گیا تھا۔ یہ عہدہ بعد میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) میں تبدیل ہوگیا تھا۔رمیز راجہ اس عہدے پر شہریارخان کے دور میں بھی فائز رہے۔ باب وولمر کو پاکستانی ٹیم کے کوچ کے طور پر لانے والے رمیز راجہ ہی تھے لیکن ایک وقت وہ آیا جب شہریارخان نے ان سے کمنٹری اور کرکٹ بورڈ میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔اس کا نتیجہ رمیز راجہ کے استعفے کی صورت میں سنہ 2004 میں سامنے آیا تھا۔ تاہم شہریارخان نے اپنی کتاب میں یہ تسلیم کیا ہے کہ رمیز راجہ کا متبادل تلاش کیے بغیر ان سے استعفی لینا ’میری غلطی تھی۔‘

 

 

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اس لیئے میں بے پردہ رہتی ہوں

موجیں لگ گئیں موجیں،سعودی عرب جانے والوں کے لیے شاندار خوشخبری ،بڑی اجازت مل گئی پابندی ختم ؟